دشتِ فرقت میں تری یاد کی آغوش ، غضب

غزل| جاویدؔ جمیل انتخاب| بزم سخن

دشتِ فرقت میں تری یاد کی آغوش ، غضب
لب تھے گویا ترے اور میں ہمہ تن گوش ، غضب
سرسراہٹ تھی محبت کی فقط اور ہم تھے
جس طرف دیکھئے ماحول تھا خاموش ، غضب
یاد کے ہونٹوں پہ رقصاں تھے سریلے نغمے
جسم بے ہوش تھا اور جان تھی مدہوش ، غضب
ایسا لگتا تھا ہر اک خار ہوا ہے معدوم
ایسا لگتا تھا چمن سارا تھا گل پوش ، غضب
منفرد ذائقہ ہر ایک جھلک کا نکلا
میں نے ہر لقمۂ دیدار کیا نوش ، غضب
جلوہ افروز ہوا حسن بھری محفل میں
ہوش میں لگتا نہیں تھا کوئی ذی ہوش ، غضب
ہر نظر تیری طرف تیری نظر میری طرف
سب کو میرے لئے کر ڈالا فراموش ، غضب
جشنِ معراجِ محبت ہے عظیم آج کی رات
درمیاں جتنے تھے پردے ہوئے روپوش ، غضب
کب محبت کے تقاضوں کو فراموش کیا
ہو گیا سارے فرائض سے سبکدوش ، غضب

ایسا لگتا تھا مٹا ڈالے گا مجھ کو جاویدؔ
یادوں کا ایک تلاطم سا تھا پرجوش ، غضب


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام