شام کے شعلے سے کیا شمعیں فروزاں ہو گئیں

غزل| راحت نسیمؔ ملک انتخاب| بزم سخن

شام کے شعلے سے کیا شمعیں فروزاں ہو گئیں
خواب سی پرچھائیاں بھی جیسے انساں ہو گئیں
درد کی فصلیں ہری رت کو ترستی ہی رہیں
اب کے شاید بے اثر آنکھوں کی جھڑیاں ہو گئیں
وقت کی ریگِ رواں میں گم ہوئے کتنے سراب
دل کو اس اندھے سفر پر نکلے صدیاں ہو گئیں
وہ نہیں تو سب نے گہری چپ کی چادر اوڑھ لی
شہر کی ہنستی گذر گاہیں بھی ویراں ہو گئیں
چاند آنکھوں میں اتر کر کچھ عجب دکھ دے گیا
سونی راتیں میری تنہائی کی پہچاں ہو گئیں

سوچ کی رو ذہن کے شیشے میں ڈھلتے ہی نسیمؔ
کتنی تصویریں تھیں جو کاغذ پر عریاں ہو گئیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام