لہو سے لکھ کے مجھے ایک کتاب دینا ہے

غزل| فناؔ نظامی کانپوری انتخاب| بزم سخن

لہو سے لکھ کے مجھے ایک کتاب دینا ہے
کہ قطرہ قطرہ کا مجھ کو حساب دینا ہے
مجھے تو جان بچانا ہے ایک شرابی کی
اسے کہیں سے بھی لا کر شراب دینا ہے
وہ گفتگو میں مخاطب تو تھا سبھی سے مگر
یہ جانتا تھا مجھی کو جواب دینا ہے
بہار والو چمن کو نہ اس طرح روندو
تمہیں گلوں کا خزاں کو حساب دینا ہے
چمن اجاڑ رہا ہے یہ کہہ کے اب بھی کیوں
ہر ایک شاخ کو تازہ گلاب دینا ہے
مدد کرو مری اے عاشقانِ پختہ شعور
کہ ایک حسین کے خط کا جواب دینا ہے
تو بد گمان نہ ہو مجھ سے اے مری شبِ غم
تجھے چراغ نہیں ماہتاب دینا ہے
فناؔ کچھ اس کے سوا کر نہ پائیں گے احباب
کہ ایک دن مجھے مٹی میں داب دینا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام