آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے

غزل| ضیاؔ جالندھری انتخاب| بزم سخن

آج ہی محفل سرد پڑی ہے آج ہی درد فراواں ہے
کوئی تو دل کی بات کو چھیڑو یارو محفل یاراں ہے
میرے ہر آدرش کا عالم اب تو عالمِ ویراں ہے
دل میں تیری تمنا جیسے موجِ ریگ بیاباں ہے
پاؤں تھکن سے چور ہیں لیکن دل میں شعلۂ امکاں ہے
میرے لئے اک کرب مسلسل تیرا جمالِ گریزاں ہے
مجھ سے ملنے کے خواہاں ہو مل کر رونے سے حاصل؟
پھر وہ آگ بھڑک اٹھے گی اب جو راکھ میں پنہاں ہے
عین خزاں میں ہوا نے شاید نام لیا ہے بہاروں کا
ٹہنی ٹہنی کانپ اٹھی ہے پتہ پتہ لرزاں ہے
آ تو گئے ہیں آنے والے کیسے استقبال کریں؟
اب وہ آبادی سونی ہے اب وہ گھروندا ویراں ہے

تیرے دکھ کو پا کر ہم تو اپنا دکھ بھی بھول گئے
کس کو خبر تھی تیری خموشی تہ در تہ اک طوفاں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام