دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

غزل| کلیم احمد عاجزؔ انتخاب| بزم سخن

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
ہم خاک نشیں تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمہیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمہیں؟ کیا بات کرو ہو
کیا ہوگیا تم کو نشۂ حسن میں صاحب
جو بات نہ کرنی ہے وہی بات کرو ہو
آہنگِ زباں ٹھیک نہ اسلوبِ سخن ٹھیک
دل توڑو ہو یا پرسشِ حالات کرو ہو
یوں تو کبھی منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بکے ہے
دیوانہ ہے دیوانے سے کیا بات کرو ہو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام