نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی

غزل| جونؔ ایلیا انتخاب| بزم سخن

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈھتی ہی رہی
عجب طرح رخِ آئندگی کا رنگ اڑا
دیارِ ذات میں از خود گذشتگی ہی رہی
حریمِ شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
حریمِ شوق میں بس شوق کی کمی ہی رہی
پسِ نگاہ تغافل تھی اک نگاہ کہ تھی
جو دل کے چہرۂ حسرت کی تازگی ہی رہی
عجیب آئینۂ پرتوِ تمنا تھا
تھی اس میں ایک اداسی کہ جو سجی ہی رہی
بدل گیا سبھی کچھ اس دیارِ بودش میں
گلی تھی جو تری جاں وہ تری گلی ہی رہی
تمام دل کے محلے اجڑ چکے تھے مگر
بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی خوشی ہی رہی
وہ داستان تمہیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام