اب کوئی پیار مہکتا ہے نہ جلتے ہیں بدن

غزل| خورشید احمد جامیؔ انتخاب| بزم سخن

اب کوئی پیار مہکتا ہے نہ جلتے ہیں بدن
آ گئی وقت کے چہرے پہ خیالوں کی تھکن
رات کچھ دیر ترے شہر میں رک جاتی ہے
اور ہو جاتے ہیں یادوں کے دریچے روشن
جب بھی حالات نے زخموں کو چھپانا چاہا
چیخ اٹھے ہیں امیدوں کے پھٹے پیراہن
زندگی آج بھی کچھ سوچ رہی ہے جیسے
ہر اداسی کو سمجھ کر ترے ماتھے کی شکن

یوں نظر آتے ہیں اب دور سے ماضی کے محل
جیسے ویرانے میں تاریک و شکستہ مدفن


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام