عقل نے ہم کو یوں بھٹکایا رہ نہ سکے دیوانے بھی

غزل| امیدؔ فاضلی انتخاب| بزم سخن

عقل نے ہم کو یوں بھٹکایا رہ نہ سکے دیوانے بھی
آبادی کو ڈھونڈنے نکلے کھو بیٹھے ویرانے بھی
چشمِ ساقی بھی نم ہے لو دیتے ہیں پیمانے بھی
تشنہ لبی کے سیلِ تپاں سے بچ نہ سکے میخانے بھی
سنگِ جفا کو خوش خبری دو مژدہ دو زنجیروں کو
شہرِ خرد میں آ پہنچے ہیں ہم جیسے دیوانے بھی
ہم نے جب جس دوست کو بھی آئینہ دکھایا ماضی کا
حیراں ہو کر عکس نے پوچھا آپ مجھے پہچانے بھی
جسم کی تشنہ سامانی سے جسم ہی نا آسودہ نہیں
ٹوٹ گئے اس زد پر آ کر روح کے تانے بانے بھی
اندیشے اور بزم جاناں دار کا ذکر اور اتنا سکوت
دیوانوں کے بھیس میں شاید آ پہنچے فرزانے بھی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام