جن سے آنکھیں بچالی گئی تھیں کبھی سامنے پھر نہ وہ عکس لائے گئے

غزل| مخمورؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

جن سے آنکھیں بچالی گئی تھیں کبھی سامنے پھر نہ وہ عکس لائے گئے
آئینوں سے گریزاں تھی جن کی نظر حشر کے دن وہ اندھے اٹھائے گئے
اندھے بہروں کی بستی کے اک چوک میں رات بھر کل انوکھا تماشا رہا
اُس کی آیات کی رونمائی ہوئی اُس کے پیغام پڑھ کر سنائے گئے
یہ پرانے یگوں کی کہانی نہیں میرے اپنے زمانے کی تاریخ ہے
دن دہاڑے لٹیں سینکڑوں بستیاں شہر کے شہر زندہ جلائے گئے
قطرہ قطرہ لہو جو زمین پر گرا ظلمتِ وقت میں دیپ بن کر جلا
قتل گاہوں کی اونچی منڈیروں پہ جب خوں میں لتھڑے ہوئے سر سجائے گئے
زندگی بھی سراسر اک الزام تھی موت بھی کیا ہے اک تازہ الزام ہے
اپنی معصومیت میں رہے ہم مگن لاکھ الزام ہم پر لگائے گئے
تھا یہی حاصلِ جستجو سے نظر اپنی آنکھوں نے دیکھا ہے صرف اس قدر
سامنے بس گھڑی دو گھڑی کے لیے دھندلے دھندلے سے منظر کچھ آئے گئے
تھے وہ مخمورؔ اپنے تجسس میں خود یا کسی اور کی جستجو تھی انھیں
شہر کی سونی سڑکوں پہ ہر شام کو کھوئے کھوئے سے کچھ لوگ پائے گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام