جو کرن بنے نہ کنول بنے وہ پیام ہے کہ مذاق ہے

غزل| شمیمؔ کرہانی انتخاب| بزم سخن

جو کرن بنے نہ کنول بنے وہ پیام ہے کہ مذاق ہے
مری صبح ہے کہ ہنسی کوئی مری شام ہے کہ مذاق ہے
جنہیں پیاس ہو انھیں کم سے کم جو نہ پیاسے ہوں انھیں دم بدم
مرے ساقیا ترے مے کدے کا نظام ہے کہ مذاق ہے
کبھی پوچھ اہل حرم سے تو جو گزر ہو خلوتِ خاص میں
کہ حقیقتاً مئے جاں فروز حرام ہے کہ مذاق ہے
جو کرن کا کھیل سمجھ کے شام و شفق کی سیر میں کھو گئے
انھیں کیا خبر کوئی زندگی لبِ بام ہے کہ مذاق ہے
کوئی ہو صبا کا مزاج داں تو کرے سوال دمِ سحر
کہ چلی ہے تو جو سوئے چمن کوئی کام ہے کہ مذاق ہے
نہ غبارِ دشت نہ گردِ رہ نہ جنونِ منزلِ آرزو
یہ حیاتِ عصر کے قافلے کا خرام ہے کہ مذاق ہے

نہ شمیمؔ ہاتھ بڑھا ابھی کہ نظر فریب ہے مے کدہ
تجھے کیا خبر کفِ مے فروش میں جام ہے کہ مذاق ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام