ناکام ہی دل جو رہنا تھا ناکام رہا اچھا ہی ہوا

غزل| منظرؔ سلیم انتخاب| بزم سخن

ناکام ہی دل جو رہنا تھا ناکام رہا اچھا ہی ہوا
اب کیجے کسی کا شکوہ کیا جو کچھ بھی ہوا اچھا ہی ہوا
کچھ منزل کا غم بڑھ جاتا کچھ راہیں مشکل ہو جاتیں
اس تپتی دھوپ میں زلفوں کا سایہ نہ ملا اچھا ہی ہوا
اب راہِ وفا کے پتھر کو ہم پھول نہیں سمجھیں گے کبھی
پہلے ہی قدم پر ٹھیس لگی دل ٹوٹ گیا اچھا ہی ہوا
دو چار گھڑی ہنس بول کے ہم برسوں خوں کے آنسو روتے
دو چار گھڑی بھی بزمِ طرب میں جی نہ لگا اچھا ہی ہوا
ان جادو کرنے والوں کے کچھ بھید سمجھ میں آ تو گئے
دل پیار کے پیچھے پاگل تھا ناکام ہی رہا اچھا ہی ہوا
دو گھونٹ سے اپنی تشنہ لبی کیا کم ہوتی کیوں کم ہوتی
چھلکا ہوا ساغر ہاتھوں سے گر کر ٹوٹا اچھا ہی ہوا

ہر وقت خزاں کے جھونکوں سے ڈرتے رہتے ہم بھی منظرؔ
سینے میں کبھی ارمانوں کا غنچہ نہ کھلا اچھا ہی ہوا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام