یہ قدم قدم تاَمل یہ تھکے تھکے ارادے

غزل| رشید کوثرؔ فاروقی انتخاب| بزم سخن

یہ قدم قدم تاَمل یہ تھکے تھکے ارادے
کہو میرِ کارواں سے کہ حدی کی لے بڑھا دے
بخوشی قبول کر لوں مجھے تو اگر سزا دے
ترے آستاں سے لیکن کوئی غیر کیوں اٹھا دے
سرِ بزم اے مغنّی مجھے تو نہ دے سکے گا
وہ سکوت کا ترنّم جو ضمیر کو جگا دے
ہوئیں مدتیں کہ دل ہیں خلش طلب سے خالی
ابھی ہنس پڑیں شگوفے جو نسیم گد گدا دے
یہی فتحِ آرزو ہے کہ شکستِ آرزو سے
تگ و تازِ آرزو کے نئے سلسلے ملا دے
غمِ زندگی سے کہہ دو کہ رہے جلو میں ورنہ
غمِ دل سبک عناں ہے غمِ دل کو راستہ دے
میں وطن کی ناشناسی اسی بے زباں سے پوچھوں
جو کچل گئی ہے مالی وہ کلی مجھے اٹھا دے
مرے ہم نشین! اگر تو مرا ہم سفر نہیں ہے
میں چلا خدا تجھے بھی دلِ درد آشنا دے
یہ کمالِ زندگی ہے کہ جب آفتاب ڈوبے
تو فلک کو نور دے کر نئی انجمن سجا دے

عجب امتحاں ہے کوثرؔ یہ تمیزِ خیر و شر بھی
وہی آگ دے اجالا وہی بستیاں جلا دے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام