اپنے جینے کے سہارے کچھ نہیں

غزل| محشرؔ بدایونی انتخاب| بزم سخن

اپنے جینے کے سہارے کچھ نہیں
سوچتے رہتے ہیں کہتے کچھ نہیں
فقر خود ہے اک متاعِ بے بہا
دیکھئے تو پاس اپنے کچھ نہیں
زخم سہنا خوں بہانا شرط ہے
معرکے میں اِس سے پہلے کچھ نہیں
اس ہنر سے عہد سخت اس نے لیا
کر لیا اقرار سمجھے کچھ نہیں
شور تھا اُس کی سخاوت کا بڑا
ہم سخی کے در سے لائے کچھ نہیں
جس جگہ سایہ ملا بس پڑ رہے
غم کے ماروں کے ٹھکانے کچھ نہیں
رکھتے ہیں دریا کے تیور بعض لوگ
بے بساط اندر سے ہوتے کچھ نہیں
خوب ہے انصاف اہلِ فن کے ساتھ
ہیں نئے سب کچھ پرانے کچھ نہیں
تابِ ذرّہ ہے عیاں اب کیوں کہیں
سامنے سورج کے ذرّے کچھ نہیں
بات کی تہہ میں ہے معنی کا بھرم
حرف بھاری اور ہلکے کچھ نہیں
ایسے بھی تھے سوزِ دل کی مدّعی
میرؔ بنتے تھے مگر تھے کچھ نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام