بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا

غزل| غلام ہمدانی مصحفیؔ انتخاب| بزم سخن

بچا گر ناز سے تو اس کو پھر انداز سے مارا
کوئی انداز سے مارا تو کوئی ناز سے مارا
کسی کو گرمیٔ تقدیر سے اپنی لگا رکھا
کسی کو منہ چھپا کر نرمیٔ آواز سے مارا
ہمارا مرغِ دل چھوڑا نہ آخر اس شکاری نے
گہے شاہین پھینکے اس پہ گاہے باز سے مارا
غزل پڑھتے ہی میری یہ مغنی کی ہوئی حالت
کہ اس نے ساز مارا سر سے اور سر ساز سے مارا
نکالی رسمِ تیغ و طشت دلی میں جزاک اللہ
کہ مارا تو ہمیں تو نے پر ایک اعزاز سے مارا
نہ اڑتا مرغِ دل تو چنگلِ شاہیں میں کیوں پھنستا
گیا یہ خستہ اپنی خوبئ پرواز سے مارا
جہاں تک راز داری تھی لکھی دشمن کے طالع میں
ہمیں بدنام کر کے طالعِ ناساز سے مارا
ہزاروں رنگ اس کے خون نے یاروں کو دکھلائے
جب اس نے مصحفیؔ کو اپنی تیغِ ناز سے مارا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام