ہم باغِ تمنا میں دن اپنے گزار آئے

غزل| ارمؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

ہم باغِ تمنا میں دن اپنے گزار آئے
آئے نہ بہار آخر شاید نہ بہار آئے
رنگ ان کے تلوّن کا چھایا رہا محفل پر
کچھ سینہ فگار اٹھے کچھ سینہ فگار آئے
فطرت ہی محبت کی دنیا سے نرالی ہے
ہو درد سِوا جتنا اتنا ہی قرار آئے
کیا حسن طبیعت ہے کیا عشق کی زینت ہے
دل مٹ کے قرار آئے رنگ اڑ کے نکھار آئے
در سے ترے ٹکرایا اک نعرۂ مستانہ
بے نام لیے تیرا ہم تجھ کو پکار آئے
تصویر بنی دیکھی اک جانِ تمنا کی
آنسو مری آنکھوں میں کیا سلسلہ وار آئے
کچھ ان سے نہ کہنا ہی تھی فتح محبت کی
جیتی ہوئی بازی کو ہم جان کے ہار آئے
اس درجہ وہ پیارے ہیں کہتے ہی نہیں بنتا
کیا اور کہا جائے جب اور بھی پیار آئے

اس بزم میں ہم آخر پہنچے بھی تو کیا پایا
دل ہی کی دبی چوٹیں کچھ اور ابھار آئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام