قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ
اپنی پوشاک کے چھن جانے پہ افسوس نہ کر
سر سلامت نہیں رہتے یہاں دستار کے بیچ
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اُگلتے رہے اخبار کے بیچ
کاش اس خواب کی تعبیر کی مہلت نہ ملے
شعلے اُگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایہ صفِ اشجار کے بیچ
رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض، قرض، دوا
منقسم ہوگیا انسان ان ہی افکار کے بیچ

دیکھے جاتے نہ تھے آنسو مرے جس سے محسنؔ
آج ہنستے ہوئے دیکھا اسے اغیار کے بیچ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام