نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

غزل| علامہ محمد اقبالؔ انتخاب| بزم سخن

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
یہ عقل و دل ہیں شرر شعلۂ محبت کے
وہ خار و خس کے لئے ہے یہ نیستاں کے لئے
مقامِ پرورش آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیر گل کے لئے ہے نہ آشیاں کے لئے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بیکراں کے لئے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لئے
مرے گلو میں ہے اک نغمہ جبرائیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھا ہے لا مکاں کے لئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام