یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے

غزل| باصرؔ سلطان کاظمی انتخاب| بزم سخن

یہ نہیں ہے کہ تجھے میں نے پکارا کم ہے
میرے نالوں کو ہواؤں کا سہارا کم ہے
اس قدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے
دوستی میں تو کوئی شک نہیں اس کی پر وہ
دوست دشمن کا زیادہ ہے ہمارا کم ہے
صاف اظہار ہو اور وہ بھی کم از کم دو بار
ہم وہ عاقل ہیں جنہیں ایک اشارا کم ہے
ایک رخسار پہ دیکھا ہے وہ تل ہم نے بھی
ہو سمرقند مقابل کہ بخارا کم ہے
اتنی جلدی نہ بنا رائے مرے بارے میں
ہم نے ہمراہ ابھی وقت گزارا کم ہے
باغ اک ہم کو ملا تھا مگر اس کو افسوس
ہم نے جی بھر کے بگاڑا ہے سنوارا کم ہے
آج تک اپنی سمجھ میں نہیں آیا باصرؔ
کون سا کام ہے وہ جس میں خسارا کم ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام