یونہی اپنے آپ میں مبتلا مری ساری عمر گزر گئی

غزل| عرفانؔ ستار انتخاب| بزم سخن

یونہی اپنے آپ میں مبتلا مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہوا مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے ادھڑ گیا کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در یونہی جا بہ جا مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی کبھی آہ تھی کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی نہ خدا ملا مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے نہ یہ شہر تھا نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادۂ عشق تھا میں فقیرِ جادۂ عشق تھا
میں گزر چکا میں گزر گیا مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا مری ساری عمر گزر گئی
مری ان صفات کا کیا بنا مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا مرا کیا بنا مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا مری ساری عمر گزر گئی

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائیگاں کہیں ہو نہ جاؤں میں رائیگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا مری ساری عمر گزر گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام