ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور پھر جل تھل ہوئے

غزل| صدیقہ شبنمؔ انتخاب| بزم سخن

ٹوٹ کر اندر سے بکھرے اور پھر جل تھل ہوئے
ہم بچھڑ کر تجھ سے اتنا روئے کہ بادل ہوئے
تھے کبھی آباد جو زخموں کے پھولوں سے یہاں
دیکھنا وہ شہر اس موسم میں سب جنگل ہوئے
دھوپ سے محرومیوں کی تھے ہراساں لوگ سب
روح کے آزار سے کچھ اور بھی پاگل ہوئے
جن سے وابستہ تھی شبنمؔ زندگی کی ہر خوشی
آہ کیسے لوگ تھے نظروں سے جو اوجھل ہوئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام