سخن آمیز خاموشی کا یہ اعجاز ہوتا ہے

غزل| رانا سعید دوشیؔ انتخاب| بزم سخن

سخن آمیز خاموشی کا یہ اعجاز ہوتا ہے
سمندر کے تکلم کو بھی جس پر ناز ہوتا ہے
خدا ناراض ہوتا ہے اگر سجدہ کروں تجھ کو
خدا کی مان لوں تو تو نظر انداز ہوتا ہے
محبت کیا عبادت کیا کہ میں دو کشتیوں میں ہوں
نہ کچھ انجام ہوتا ہے نہ کچھ آغاز ہوتا ہے
مجھے احباب کا طعنہ کہ تیرے کان بجتے ہیں
مجھے لگتا ہے سناٹا بھی جیسے ساز ہوتا ہے
سرِ رہ یوں پرائی پوٹلی کھولا نہیں کرتے
بھرم کی بند گٹھڑی میں کسی کا راز ہوتا ہے
میں عزت بیگ سے رسوائی کا تمغہ اڑا لایا
شروعِ عشق میں یہ بھی بڑا اعزاز ہوتا ہے

جسے صیاد سے بڑھ کر شکم کی فکر کھاتی ہو
وہ دانہ چھوڑ کر کب مائلِ پرواز ہوتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام