افسوس اب وہ لذتِ حسنِ سحر نہیں

غزل| گوہؔر دہلوی انتخاب| بزم سخن

افسوس اب وہ لذتِ حسنِ سحر نہیں
دل کو یقین ہے کہ دعا میں اثر نہیں
یہ اور بات ہے کہ توجہ نہ کر سکے
ورنہ جو مجھ پہ گزری ہے تم کو خبر نہیں
جس کی خلش سے زندگیٔ دل جوان تھی
اب سینۂ حیات میں وہ نیشتر نہیں
جس کو گرا دیا نگہِ التفات نے
دنیائے اعتبار میں اس کا گزر نہیں
اب وہ ہیں اور گیسو و رخ کی تجلیاں
نظروں میں میری جلوۂ شام و سحر نہیں
صرف ایک بار جس کو میں اپنی بھی کہہ سکوں
میرے نصیب میں کوئی ایسی سحر نہیں
اوروں نے بجلیوں کا برن لے لیا مگر
او ناشناسِ وقت تجھے کچھ خبر نہیں
احساسِ کمتری ہی تباہی کا ہے سبب
فطرت کے ساتھ ساتھ مزاجِ بشر نہیں

گوہرؔ کا صبر و ضبط نہ کھو ان کے روبرو
کیوں اعتبار کھوتی ہے اے چشمِ تر نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام