پھر ہوئے بدنام کہلانے لگے فرزانہ ہم

غزل| طفیل احمد جمالؔی انتخاب| بزم سخن

پھر ہوئے بدنام کہلانے لگے فرزانہ ہم
پھر کسی بستی میں آ نکلے دلِ دیوانہ ہم
ایک تنہا دل ، بھٹکتی روح ، اک پیاسی نظر
اے جنوں تیرے لئے لائے ہیں کیا پروانہ ہم
تیشۂ فرہاد سے لے کر بہرِ دورِ فلک
آج تک دہرا رہے ہیں ایک ہی افسانہ ہم
انقلابِ میکدہ کی بات یوں کرتے ہیں لوگ
جیسے ہوں نا آشنائے ساقئ میخانہ ہم
اُس جہان دوش و فردا و بلند و پست سے
کتنی دور اور آ گئے اے لغزشِ مستانہ ہم
منظرِ دار و رسن میں ہم الجھ کر رہ گئے
ورنہ نکلے تھے بعزمِ کوچۂ جانانہ ہم

چاند تاروں کے کھلونے مانگتے ہیں چرخ سے
اے جمالیؔ لائے ہیں کیا فطرتِ طفلانہ ہم


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام