ترے حرف و لب کا طلسم تھا مری آب و تاب میں رہ گیا

غزل| نوشیؔ گیلانی انتخاب| بزم سخن

ترے حرف و لب کا طلسم تھا مری آب و تاب میں رہ گیا
وہ کسی گلاب کا عکس تھا جو مری کتاب میں رہ گیا
میں کہاں سراپائے ناز تھی مجھے یاد ہے شبِ تیرگی
وہ کسی کے لمس کا معجزہ جو مرے شباب میں رہ گیا
مری بات بات میں روشنی مرے حرف حرف میں دلکشی
تو مرے شریکِ وصالِ جاں مری ہر کتاب میں رہ گیا
دلِ خوش گماں تری خیر ہو تو ہے پھر یقیں کی صلیب پر
تجھے پھر کسی سے شکایتیں تُو اسی عذاب میں رہ گیا
تجھے کیا ملا دلِ مبتلا! نہ کوئی دعا نہ کوئی وفا
مگر ایک عرصۂ رائیگاں جو ترے حساب میں رہ گیا
کوئی پھول کھل کے بکھر گیا کوئی بات بن کے بگڑ گئی
نہ سوال کوئی لبوں پہ ہے نہ گلہ جواب میں رہ گیا

وہ جو میرا عہدِ جمال تھا وہ جو میرا شہرِ خیال تھا
مگر اس کا ذکرِ کمال بھی کسی دشتِ خواب میں رہ گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام