دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں

غزل| راحتؔ اندوری انتخاب| بزم سخن

دلوں میں آگ لبوں پر گلاب رکھتے ہیں
سب اپنے چہروں پہ دوہری نقاب رکھتے ہیں
ہمیں چراغ سمجھ کر بجھا نہ پاؤ گے
ہم اپنے گھر میں کئی آفتاب رکھتے ہیں
بہت سے لوگ کہ جو حرف آشنا بھی نہیں
اسی میں خوش ہیں کہ تیری کتاب رکھتے ہیں
یہ مے کدہ ہے وہ مسجد ہے وہ ہے بت خانہ
کہیں بھی جاؤ فرشتے حساب رکھتے ہیں
ہمارے شہر کے منظر نہ دیکھ پائیں گے
یہاں کے لوگ تو آنکھوں میں خواب رکھتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام