تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی

غزل| اعزاز احمد آذرؔ انتخاب| بزم سخن

تو نے چھیڑا تو یہ کچھ اور بکھر جائے گی
زندگی زلف نہیں ہے کہ سنور جائے گی
خون تاروں کا جو ہوگا تو شفق پھوٹے گی
سرخئ خوں سے سحر اور نکھر جائے گی
تھک کے بیٹھا ہوں میں سایوں کے گھنے جنگل میں
سوچتا ہوں کہ ہر اک راہ کدھر جائے گی
یہ الگ بات کہ دن میرے مقدر میں نہ ہو
رات پھر رات ہے آخر کو گزر جائے گی
میرا سرمایہ تری یاد ہے اے جانِ غزل
تجھ کو بھولا تو مری شاعری مر جائے گی
چشمِ برہم سے میں خائف تو نہیں ہوں آذرؔ
یہ وہ ندی ہے جو چڑھتے ہی اتر جائے گی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام