ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے

گیت| تسلیم فاضلی انتخاب| بزم سخن

ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
کبھی جو تھے پیار کی ضمانت
وہ ہاتھ ہیں غیر کی امانت
جو قسمیں کھاتے تھے چاہتوں کی
انہی کی نیت بہک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
نصیب ہی میں وفا نہیں ہے
جہاں کہیں تھا حنا کو کھلنا
حنا وہیں پہ مہک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
وہ جن کی خاطر غزل کہی تھی
وہ جن کی خاطر لکھے تھے نغمے
انہی کے آگے سوال بن کر
غزل کی جھانجر چھنک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
وہ میرے نزدیک آتے آتے
حیا سے اک دن سمٹ گئے تھے
میرے خیالوں میں آج تک وہ
بدن کی ڈالی لچک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
صدا جو دل سے نکل رہی ہے
وہ شعر و نغموں میں ڈھل رہی ہے
کہ دل کے آنگن میں جیسے کوئی
غزل کی جھانجر چھنک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے
تڑپ میرے بے قرار دل کی
کبھی تو ان پہ اثر کرے گی
کبھی تو وہ بھی جلیں گے اس میں
جو آگ دل میں دہک رہی ہے
ہماری سانسوں میں آج تک وہ حنا کی خوشبو مہک رہی ہے
لبوں پہ نغمے مچل رہے ہیں نظر سے مستی چھلک رہی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام