ہے زمیں پر زندگی کی داستاں بکھری ہوئی

غزل| تابشؔ زیدی انتخاب| بزم سخن

ہے زمیں پر زندگی کی داستاں بکھری ہوئی
پھول مرجھائے ہوئے اور پتّیاں بکھری ہوئی
میں جنوں کے زیرِ سایہ بھی سکوں پا جاؤں گا
امنِ عالم کی مگر ہیں دھجّیاں بکھری ہوئی
میں سمجھتا ہوں زمیں پر انقلاب آنے کو ہے
آسماں پر ہیں شفق کی سرخیاں بکھری ہوئی
اک نظر کے سامنے ہے اک نظر کی اوٹ میں
زندگی ہے دو جہاں کے درمیاں بکھری ہوئی
اپنی حالت کو جو دیکھا انقلاب آنے کے بعد
دل کے ویرانے میں تھیں خوش فہمیاں بکھری ہوئی
آج تابشؔ پھر یہاں مل بیٹھنے کے شوق میں
جمع کرنی پڑ گئیں تنہائیاں بکھری ہوئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام