مجھ کو تاریک سمندر سے ابھارے کوئی

غزل| اطہرؔ نفیس انتخاب| بزم سخن

مجھ کو تاریک سمندر سے ابھارے کوئی
میرے سینے میں نئے زخم اتارے کوئی
روح کو روح کے آداب سکھائے میں نے
مجھ کو سمجھائے بدن کے بھی اشارے کوئی
میرے جلنے کا راز دیر تماشا دیکھے
ریشمی جسم میں بھر لائے شرارے کوئی
میں بہت جاگ چکا وہ بھی تو جاگے کچھ روز
میں بہت ہار چکا اب ذرا ہارے کوئی
بے صدا سنگ مرے جسم کو زخمی نہ کریں
بولتے چیختے پتھر مجھے مارے کوئی
اس کی آواز کوئی دوسری آواز نہ ہو
میری آواز میں اب مجھ کو پکارے کوئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام