پتواروں کو یوں لہراؤ جگ ساگر کی لہر نہ چھلکے

غزل| ظہور نظرؔ انتخاب| بزم سخن

پتواروں کو یوں لہراؤ جگ ساگر کی لہر نہ چھلکے
پریت کی نیّا کھینے والو دھیرے دھیرے ہلکے ہلکے
پیشانی پر زلفیں بکھریں رخساروں پر آنسو ڈھلکے
جس کو جیون ساتھی سمجھا وہ ہارا دو گام ہی چل کے
ترکِ محبت سہل نہیں ہے دل ہلتا ہے جاں جاتی ہے
جب پلکھیں بکھرا دیتی ہیں گالوں پر ڈورے کاجل کے
روح تو ان کی بھی کانپی ہے پاؤں تو ان کے بھی ڈوبے ہیں
وہ راہی جو پیار کی گھاٹی سے گزرے ہیں سنبھل سنبھل کے
پیار میں جلنا ہوکہ جلانا دونوں کی بنیاد لگن ہے
وہی ملا ہے پروانے کو جو پایا ہے شمع نے جل کے
ہاتھ تھکی آنکھوں پر رکھ کے روز پرانے ارماں سوئیں
روز نئی آشائیں جاگیں ہنستے روتے نیناں مل کے

بزمِ سحر کے اجیاروں میں ناچ رہی ہے آدھی دنیا
میری نظر پر پھیلائیں گے آخر کب تک آپ دھندلکے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام