چھوٹے سے گھر میں سبھی مل کے رہا کرتے تھے

غزل| ناصرؔ بشیر انتخاب| بزم سخن

چھوٹے سے گھر میں سبھی مل کے رہا کرتے تھے
نعمتیں کم تھیں مگر شکر ادا کرتے تھے
ایک کمزور سی زنجیر پڑی رہتی تھی
گھر کے دروازوں کو تالے نہ لگا کرتے تھے
بیٹھنے اٹھنے کے آداب سے آگاہ تھے ہم
غور سے بات بزرگوں کی سنا کرتے تھے
سال کے سال ملا کرتی تھی پوشاک نئی
ہم پہن کر جسے اتراتے پھرا کرتے تھے
سرِ بازار بچھڑ جانے کا خطرہ ہی نہ تھا
انگلی ماں باپ کی یوں تھام لیا کرتے تھے
جب گزرتا تھا گلی سے کوئی پھیری والا
دے کے آواز اسے روک لیا کرتے تھے
کوئی مہمان جب آتا تھا اچانک گھر میں
مل کے سب اس کی مدارات کیا کرتے تھے
ڈاکیا آدھی ملاقات کرا دیتا تھا
لوگ ان پڑھ تھے مگر خط بھی لکھا کرتے تھے
جوڑنا پڑتے نہ تھے ہاتھ خطا کاروں کو
معذرت کے لیے الفاظ ہوا کرتے تھے
پہلے ہوتے تھے گداگر بھی فقیروں کی طرح
کچھ نہ پا کر بھی دعائیں وہ دیا کرتے تھے

کیا عجب کھیل تھا وہ آنکھ مچولی ناصرؔ
عید کا چاند بھی ہم ڈھونڈ لیا کرتے تھے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام