کہتے ہیں نئے دور کا آغاز کریں گے

غزل| انجمؔ رومانی انتخاب| بزم سخن

کہتے ہیں نئے دور کا آغاز کریں گے
کچھ اور بھی یہ تفرقہ پرداز کریں گے
ہم پردہ اگر چشمِ کرم باز کریں گے
نخچیر نگاہِ غلط انداز کریں گے
انداز کہے دیتے ہیں ان خوش نفسوں کے
ہر چند مسیحا نہیں اعجاز کریں گے
ہم اور وفا ہم نہ سہی اور بہت ہیں
ہم بھی کسی غماز کو ہمراز کریں گے
لازم ہے کہ فردا کی بھی کچھ فکر ہو لیکن!
جز غم ہے یہاں کیا جو پسِ انداز کریں گے
ہر چند سنیں گے نہ وہ فریاد کسی کی
کیا چارۂ دل دوزیٔ آواز کریں گے
اب جن کو وہ سننا بھی گوارا نہیں کرتے
اک روز انہی شعروں پہ وہ ناز کریں گے
عالم ہے جو بے بال و پری کا سو رہے گا
کرنے کو ہم افلاک پہ پرواز کریں گے
بے قاعدہ ہے رسم و رہِ شوق رہے گی
بے فائدہ ہے سعی و تگ و تاز کریں گے
خاطر میں نہ لائیں گے زمانے کو ہم انجمؔ
لیکن اسے کب تک نظر انداز کریں گے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام