وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے

غزل| ڈاکٹر بشیر بدرؔ انتخاب| بزم سخن

وہ سادگی نہ کرے کچھ بھی تو ادا ہی لگے
وہ بھول پن ہے کہ بے باکی بھی حیا ہی لگے
نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی
کہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے
عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے
میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے
لرزتے پردوں میں تو جیسے جھانک کر چھپ جائے
ترے خیال میں سناٹا بھی صدا ہی لگے

حسیں ہیں اور بھی لیکن کوئی کہاں تجھ سا
جو دل جلائے بہت پھر بھی دلربا ہی لگے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام