ٹہنی سے پھول شاخ سے پتہ جدا ہوا

غزل| شکیل مظہری انتخاب| بزم سخن

ٹہنی سے پھول شاخ سے پتہ جدا ہوا
اب کی بہار میں تو عجب ماجرا ہوا
کی گفتگو تو زخمِ تمنا ہرا ہوا
لہجے کی نرمیوں میں تھا خنجر چھپا ہوا
تاریک کیوں ہے دور تلک رہگزارِ شعر
گیتوں کی آنچ درد کے شعلوں کو کیا ہوا
سب گھاؤ دل کے وقت کے مرہم سے بھر گئے
لیکن تمھارا درد نہ دل سے جدا ہوا
ایسے خفا ہوئے کہ کبھی آشنا نہ تھے
ایسے گۓ کہ پھر نہ کبھی لوٹنا ہوا
بکھرے ہوئے پڑے ہیں جہاں خوابِ آرزو
ہر ذرہ اس فضا کا ستارہ نما ہوا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام