دھوپ میں سایا بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں

غزل| اظہر فراغؔ انتخاب| بزم سخن

دھوپ میں سایا بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں
بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں
ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراوؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں
آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں
یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی لیکن
اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام