بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌ نہیں ‌دیتے

غزل| فیض احمد فیضؔ انتخاب| بزم سخن

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌ نہیں ‌دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌ نہیں ‌دیتے
دردِ شبِ ہجراں‌ کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے
خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے
ہاں ‌نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی
ہاں‌ نغمہ گرو سازِ صدا کیوں‌ نہیں‌ دیتے
مٹ‌ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں‌ نہیں‌ دیتے
پیمانِ جنوں‌ ہاتھوں‌ کو شرمائے گا کب تک
دل والو گریباں‌ کا پتہ کیوں‌ نہیں‌ دیتے
بربادئ دل جبر نہیں‌ فیضؔ‌ کسی کا
وہ دشمنِ جاں‌ ہے تو بھلا کیوں‌ نہیں‌ دیتے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام