تعارف شاعر

poet

سرشارؔ صدیقی

اسرار حسین امان صدیقی سرشار

اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ادیب و نقاد جناب سرشار صدیقی کا اصل نام اسرار حسین محمد امان صدیقی اور سرشارؔ تخلص تھا ، امان صدیقی ماں پاب کا دیا ہوا نام اور اسرار حسین ان کا خود کا اپنایا ہوا لیکن شعری و ادبی دنیا میں انہیں سرشار صدیقی کے قلمی نام ہی سے شہرت ملی۔

آپ کی پیدائش 25/ دسمبر 1926ء کو کانپور اتر پردیش ہندوستان میں ہوئی ،آپ کا آبائی وطن معظم آباد ضلع اناؤ اتر پردیش تھا ، ابتدائی تعلیم  مکتب میں ہوئی اور جامعہ العلوم کانپور میں تجوید القرآن مکمل کی ، اس کے بعد آپ نے فیض عام سکول ، پھر پریزیڈنسی ہائی سکول کلکتہ اور حلیم مسلم کالج کانپور سے تعلیم مکمل کی ، حصول تعلیم کے بعد آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور علامہ نیاز فتح پوری کی ادارت میں لکھنو سے شائع ہونے والے ادبی مجلے "نگار" کی مجلس ادارت میں شامل رہے ، آپ کی پہلی غزل 1944ء میں مجلہ نگار میں شائع ہوئی ، قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں مقیم ہو گئے، 1955میں نیشنل بنک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے اور 1984ء میں اسی بنک کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے ، آپ زندگی بھر صحافت سے وابستہ رہے اور باقاعدگی کے ساتھ "جنگ" اور "ایکسپریس" میں کالم لکھتے رہے ، آپ نے آٹھ شعری مجموعے اور چار نثری تصانیف تحریر کیں جن کو علمی و ادبی دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ان ادبی خدمات پر متعدد ایوارڈز و اعزازات سے نوازا گیا جس میں حکومت پاکستان کا سال 2011ء کا صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی شامل ہے ، آپ کی اہم تصانیف میں "ارتقا" (1947ء) ، "پتھر کی لکیر" (1962ء) ، "ابجد" (1983ء) ، "بے نام" (1983ء) اور "خزاں کی ایک شام" (1988ء) نمایاں ہیں ، آپ 07/ ستمبر 2014ء کو کراچی میں وفات پا گئے۔


سرشارؔ صدیقی کا منتخب کلام