انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ
وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا مری بات مان جاؤ

کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فرازؔ کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام