اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں

غزل| استاد قمرؔ جلالوی انتخاب| بزم سخن

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارہ نہیں
بات ہوتی گلوں تک تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
آج آئے ہو تم کل چلے جاؤ گے یہ محبت کو اپنی گوارہ نہیں
عمر بھر کا سہارا بنو تو بنو دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ میں نے تم کو پکارا نہیں
ٹھوکریں یوں کھلانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گوارہ نہیں
گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقیناً سنے گا صدائیں مری کیا تمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
اپنی زلفوں کو رخ سے ہٹا لیجیے مرا ذوق نظر آزما لیجیے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر یا تو نذریں نہیں یا نظارہ نہیں
جانے کس کی لگن کس کے دھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مڑ کے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تم کو آواز دی پھر بھی کہتے ہیں ہم نے پکارا نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام