رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
کچھ تو ميرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نا سہی پھر بھی کبھی تو
رسمِ و رہِ دنيا ہی نبھانے کے لئے آ
کس کس کو بتائيں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ
اک عمر سے ہوں لذتِ گريہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں مجھ کو رُلانے کے لئے آ
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہيں اميديں
يہ آخری شمعيں بھی بجھانے کے لئے آ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام