روشنی کے اک حوالے کو لئے پھرتا ہوں میں

غزل| اقبال ساجدؔ انتخاب| بزم سخن

روشنی کے اک حوالے کو لئے پھرتا ہوں میں
اپنی جیبوں میں اجالے کو لئے پھرتا ہوں میں
میرا مسلک ہے جہاں میں سب کو ٹھنڈک بانٹنا
چاند ہوں دھرتی پہ ہالے کو لئے پھرتا ہوں میں
صدق کے اظہار کا اس سے بڑا کیا ہو ثبوت
آج کل ہونٹوں پہ تالے کو لئے پھرتا ہوں میں
موت کو مجھ سے نہیں ہے چھیننے والا کوئی
زہر خالص کے پیالے کو لئے پھرتا ہوں میں
جو بھی میرے سامنے آئے گا کھائے گا شکست
دل میں امیدوں کے بھالے کو لئے پھرتا ہوں میں
ہو گیا ہے آنکھ میں محفوظ خوں رویا ہوا
بادلوں کے سرخ گالے کو لئے پھرتا ہوں میں

پرورش پاتی ہیں ساجدؔ مکڑیاں تخلیق کی
ذہن میں سوچوں کے جالے کو لئے پھرتا ہوں میں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام