تعارف شاعر

poet

سیمابؔ اکبر آبادی

عاشق حسین صدیقی سیماب اکبر آبادی

اردو کے قادر الکلام شعراء میں ایک قابل قدر اور نامور شاعر جناب علامہ سیماب اکبر آبادی ہیں جو کہ شاعری میں جناب داغؔ دہلوی کے شاگرد تھے۔

ان کی پیدائش 05/ جون 1880ء کو بمقام اکبر آباد آگرہ میں ہوئی ، علامہ صاحب کا اصل نام عاشق حسین صدیقی تها ،  ان کے والد شیخ محمّد حسین صدیقی بھی ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور حکیم امیر الدین اتتار اکبرآبادی کے شاگرد تھے ، علامہ سیماب نے اپنی ابتدائی تعلیم فارسی اور عربی کے طور پر حاصل کی ، اسکول گورنمنٹ کالج اجمیر سے الحاق شدہ برانچ اسکول سے میٹرک کیا ، 1897ء میں 17/ سال کی عمر میں والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے ایف اے کے آخری سال میں تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی ، بچپن ہی سے طبیعت میں شعر و سخن کا میلان تھا اسی وجہ سے زمانہ طالب علمی ہی سے شعر کہنے لگے تھے اور سیمابؔ تخلص بھی اختیار کر لیا تھا۔

1898ء میں آپ نے فصیح الملک جناب داغؔ دہلوی کی شاگردی اختیار کی ، اس کے علاوہ آپ نے قصر الادب کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا جس کے تحت کئی ایک کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مختلف ادبی پرجے بھی شائع ہوتے رہے۔

آپ نے سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ، غزل پر نظم کو فوقیت دیتے تھے پر آپ کی غزلیں زیادہ مشہور ہوئیں ، آپ کی تصانیف کی تعداد 300/ سے بھی زائد ہے جس میں 22/ شعری مجموعے ہیں ، ان میں قرآن مجید کا مکمل منظوم ترجمہ " وحیِ منظوم " ، مولانا رومی کی مشہور مثنوی کا مکمل منظوم ترجمہ " الہامِ منظوم "  ، " کلیمِ عجم ، سدرۃ المنتہی ، لوحِ محفوظ ، نیستاں ، کارِ امروز ، سازو آہنگ ، شعرِ انقلاب ، عالم آشوب ، نفیرِ غم ، سرودِ غم ، رازِ عروض اور دستور الاصلاح "  نمایاں ہیں۔

آپ کے استاد جناب داغؔ دہلوی کے شاگردوں کی تعداد تقریباً دو ہزار کے لگ بھگ تھی اسی طرح اس شاگرد نے اس معاملے میں اپنے استاد سے کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ، ان کے تین ہزار سے زیادہ شاگرد ہوئے اور اس طرح استاد و شاگرد نے بالترتیب اردو شاعری کی ایک تاریخ رقم کی ہے۔

1948ء میں وہ اپنی کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں لاہور تشریف لے گئے ، ابھی کام مکمل نہیں ہوا تھا کہ شدید علالت کے سبب کراچی منتقل ہونا پڑا جہاں ان کی خدمات جاری رہی اور 31/ جنوری 1951ء کو کراچی ہی میں انتقال کر گئے۔

تصویر / ریختہ


سیمابؔ اکبر آبادی کا منتخب کلام