زندگی سے بارہا یوں بھی نبھانا پڑ گیا

غزل| راجیش ریڈی انتخاب| بزم سخن

زندگی سے بارہا یوں بھی نبھانا پڑ گیا
کھل کے رونا چاہتے تھے مسکرانا پڑ گیا
پچھلے ہر غم کو نئے غم سے بھلانا پڑ گیا
آگ ہی سے آگ کو اکثر بجھانا پڑ گیا
ان کی آنکھیں بھی نئی ہیں ان کے سپنے بھی نئے
اپنے بچوں کے لئے میں ہی پرانا پڑ گیا
کھو گئی پہچان کچھ ایسے کہ اپنے بارے میں
آئینے کو بھی ہمیں اکثر بتانا پڑ گیا
وہ خدا تو کیا جو سچ پوچھو تو انساں بھی نہ تھے
جن کے آگے سر ہمیں اکثر جھکانا پڑ گیا
کچھ تو مجبوری سمندر کی رہی ہوگی ضرور
ورنہ کیوں ہم سے خزانے کو چھپانا پڑ گیا

مفلسی پر تو نہ چلتا تھا ہمارا کوئی زور
بے بسی میں ہاتھ بچوں پر اٹھانا پڑ گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام