سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

غزل| بسملؔ عظیم آبادی انتخاب| بزم سخن

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
ائے شہیدِ ملک و ملت میں ترے اوپر نثار
لے تری ہمت کا چرچا غیر کی محفل میں ہے
وائے قسمت پاؤں کی ائے ضعف کچھ چلتی نہیں
کارواں اپنا ابھی تک پہلی ہی منزل میں ہے
رہروِ راہِ محبت! رہ نہ جانا راہ میں
لذتِ صحرا نوردی دوریٔ منزل میں ہے
شوق سے راہِ محبت کی مصیبت جھیل لے
اک خوشی کا راز پنہاں جادۂ منزل میں ہے
آج پھر مقتل میں قاتل کہہ رہا ہے بار بار
آئیں وہ شوق شہادت جن کے جن کے دل میں ہے
مرنے والو! آؤ اب گردن کٹاؤ شوق سے
یہ غنیمت وقت ہے خنجر کفِ قاتل میں ہے
مانعِ اظہار تم کو ہے حیا ہم کو ادب
کچھ تمہارے دل کے اندر کچھ ہمارے دل میں ہے
میکدہ سنسان خم الٹے پڑے ہیں جام چور
سرنگوں بیٹھا ہے ساقی جو تری محفل میں ہے
وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے ائے آسماں
ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

اب نہ اگلے ولولے ہیں اور نہ وہ ارماں کی بھیڑ
صرف مٹ جانے کی اک حسرت دلِ بسملؔ میں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام