ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

غزل| مولانا الطاف حسین حالیؔ انتخاب| بزم سخن

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
ہے دورِ جام اولِ شب میں خودی سے دور
ہوتی ہے آج دیکھئے ہم کو سحر کہاں
یارب اس اختلاط کا انجام ہو بخیر
تھا اس کو ہم سے ربط مگر اس قدر کہاں
اک عمر چاہیئے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخمِ جگر کہاں
بس ہو چکا بیاں کسل و رنج و راہ کا
خط کا مرے جواب ہے اے نامہ بر کہاں
کون و مکاں سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر
اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
ہوتی نہیں قبول دعا ترکِ عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
حالیؔ نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح رہے رات بھر کہاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام