تو پاس بھی ہو تو دلِ بے قرار اپنا ہے

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

تو پاس بھی ہو تو دلِ بے قرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں رازدار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانہ بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
چراغِ بزم بجھا دے کہ ہو نہ رسوائی
تری نگاہ سے حال آشکار اپنا ہے
ادائے حسن کی اس بے تکلفی کے نثار
کہ جو بھی دیکھے وہ سمجھے کہ یار اپنا ہے
وہ خوش ادا بھی سہی جانِ مدعا بھی سہی
مگر فرازؔ تمہیں اعتبار اپنا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام