نہ سکت ہے ضبطِ غم کی نہ مجالِ اشک باری

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

نہ سکت ہے ضبطِ غم کی نہ مجالِ اشک باری
یہ عجیب کیفیت ہے نہ سکوں نہ بے قراری
ترا ایک ہی کرم ہے ترے ہر ستم پہ بھاری
غمِ دو جہاں سے بخشی مجھے تو نے رستگاری
مری زندگی کا حاصل ترے غم کی پاسداری
ترے غم کی آبرو ہے مجھے ہر خوشی سے پیاری
وہ جسے قرار کہیئے نہیں قسمتِ محبت
شبِ ہجر بھی گذاری شبِ وصل بھی گذاری
یہ قدم قدم بلائیں یہ سوادِ کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری
ترے جاں فراز وعدے مجھے کیا فریب دیتے
ترے کام آ گئی ہے مری زودِ اعتباری
مری رات منتظر ہے کسی اور صبحِ نَو کی
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری
وہی پھول چاک دامن وہی رنگِ اہلِ گلشن
ابھی صرف یہ ہوا ہے کہ بدل گئے شکاری
مری عاقبت کے دشمن مجھے چین آ چلا ہے
کوئی اور داغِ تازہ کوئی اور زخمِ کاری
وہ نگاہ یاد آئی مجھے تھامنا چلا میں
یہ پڑے ہیں جام و ساغر یہ دھری ہے بادہ خواری
تجھے کیا خبر کہ جس نے ترے ہوش کھو دیے ہیں
وہی آنکھ بانٹتی ہے کبھی جنسِ ہوشیاری
یہ کمالِ علم و فن ہے کہ زوالِ علم و فن ہے
نہ وفا ، نہ مہر و الفت ، نہ کرم ، نہ غم گساری
جو غنی ہو ما سوا سے وہ گدا گدا نہیں ہے
جو اسیرِ ما سوا ہو وہ امیر بھی بھکاری
کبھی کاش تو بھی سمجھے مری صنعتِ وفا کو
تجھے کیا بنا گئی ہے مری حاشیہ نگاری

ہے عجب طرح کی بازی یہ بساطِ عشق عامرؔ
کبھی جیت کر نہ جیتی کبھی ہار کر نہ ہاری


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام