کبھی لب پہ آ کے مچل گئی کبھی حد سے بات گزر گئی

غزل| سلیم دردؔ وارثی انتخاب| بزم سخن

کبھی لب پہ آ کے مچل گئی کبھی حد سے بات گزر گئی
میں نہ کہہ سکا وہ نہ سن سکے یونہی ساری رات گزر گئی
ملا دوستوں کا ہجوم بھی ملی عیش کی بھی فضا مگر
وہ گھڑی تھی حاصلِ زندگی جو تمہارے ساتھ گزر گئی
چُھپا چاند تارے بھی سو گئے بجھے حسرتوں کے چراغ بھی
ترے انتظار میں بے وفا مری یہ بھی رات گزر گئی
وہ جو شامِ وعدہ نہ آ سکے تو لباسِ اشک میں آنکھ سے
مری آرزو مری حسرتوں کی حسیں برات گزر گئی

مجھے دردؔ نیند نہ آ سکی مجھے دردؔ چین نہ مل سکا
مرے خواب میں بھی نہ آئے وہ اسی دُھن میں رات گزر گئی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام