درسِ اتحاد ملت

نظم| محمد حسین فطرتؔ انتخاب| بزم سخن

حیاتِ نو کا میں پیغام لے کے آیا ہوں
جو بے بہا ہے وہ انعام لے کے آیا ہوں
یہ نکتہ مجھ پہ عیاں قول لا الہ سے ہے
پیامِ حق کا تعلق دل و نگاہ سے ہے
کرشمہ دین کا یہ ہے دلوں کوجوڑا ہے
غرورِ رنگ و نسب کے بتوں کو توڑا ہے
جو چیز ہے یہاں مطلوب وہ ہے زادِ کمال
عمل سے فخرِ عرب ہوگئے حبش کے بلالؓ
امام بن کے پڑھائی صہیبؓ نے بھی نماز
وہ رومی ہو کے صحابہؓ کی صف میں تھے ممتاز
​خدا ہے ایک نبی ایک ہے کتاب بھی ایک
ہے لا الہ کا پیغامِ انقلاب بھی ایک
ہمارا قبلہ بھی وقتِ نماز واحد ہے
کہ قبلہ رو دم سجدہ ہر ایک عابد ہے
​نہیں مناسکِ حج میں بھی اختلاف و تضاد
یہ اتحادِ بہم کا سبق ہو ہم کو یاد
جو اختلاف ہے فقہی وہ تو فروعی ہے
جو اصل چیز ہے وہ پیرویٔ نبوی ہے
جو بند ہو کبھی وہ بابِ اجتہاد نہیں
اور اجتہاد کی کاوش بھی ارتداد نہیں
کبھی عجائبِ قرآں کا اختتام نہیں
کہ فیض بند ہو جس کا یہ وہ کلام نہیں
نہیں ہے دین میں اپنے پرائے کی تفریق
کتاب و سنتِ نبوی سے اس کی ہے تصدیق
جو دین اپنا ہے وہ دیں ہے دینِ آفاقی
روا نہیں ہے کبھی دینِ حق میں ناچاقی
پیامِ ( و اعتصموا ) پر عمل ہو گر اپنا
قسم خدا کی رہے گا بلند سر اپنا
تم ایک ہوکے جو تھامو خدا کی رسی کو
پھر اپنی مٹھی میں دیکھو گے باغِ ہستی کو
یہ شاعری نہیں نغمہ ہے سازِ فطرتؔ کا
عجیب تحفہ ہے رنگ و جمال و نکہت کا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام