وہ چشمِ زر کہاں یہ مری چشمِ تر کہاں

غزل| عدیمؔ ہاشمی انتخاب| بزم سخن

وہ چشمِ زر کہاں یہ مری چشمِ تر کہاں
ٹکرائی بھی تو جا کے نظر سے نظر کہاں
جانا ہے تم کو جاؤ چلے ہو مگر کہاں
میں ڈھونڈتا پھروں گا تمہیں در بدر کہاں
قصرِ شہی کی بات ہے قصرِ شہی کے ساتھ
تیری گلی کہاں ترے دیوار و در کہاں
دولت سے خواب گاہ تو جو بھی خرید لو
نیندیں مگر خرید سکے مال و زر کہاں
تو آگ ہی لگا کے ذرا خود کو دیکھ لے
تجھ پر یوں ہی پڑے گی کسی کی نظر کہاں
میں اپنا آپ ڈھونڈ رہا ہوں جہان میں
مجھ کو عدیمؔ اور کسی کی خبر کہاں
یہ کس مقابلے کے لئے جا رہے ہو تم
آنسو کہاں عدیمؔ صدف کا گہر کہاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام